جعلی ڈگری ہولڈر جب پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے گیا۔ تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔
(تیز خبر ڈاٹ کم)کچھ سال قبل ایک عزیز دوست آزادکشمیر آرمی رجمنٹل سنٹر مانسہر لے گے_ ان کا تبادلہ بہاولپور کر دیا گیا تھا اور رخصتی کے حوالے بےشمار دعوتوں کا اہتمام کیا گیا تھا_ ضد کرکے مجھے بھی ساتھ لےگۓ کہ کامرہ اور اٹک بھی گھوم آئیں گے ساتھ آرمی رجمنٹل سنٹر کے سابقہ ساتھیوں سے مل آنا_ خیر وہاں پہنچے تومختلف علاقہ جات کے آرمی کے دوستوں سے نشست ہوئی_ بےحد ہنس مکھ، خوش اخلاق اور آپنے آپنے علاقے کے اخلاق، زبانیں، فن اور ثقافتی اور معاشرتی اطوار لیۓ ان سب سے انسیت کا احساس ابھرتا_ اس دوران ٹھیک تین دن بعد آزادکشمیر سے بھرتی شدہ تیس، چالیس جوان ایک محترمہ کے گھر پہنچ گے_ یاد رہےکہ یہ خاتون نہایت جازب نظر، پرکشش، ملنسار، باوقار اور بےحد سلجھی ہوئی خاتون تھیں اور میں ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کو بےنظیر صاحبہ کہہ کر پکارتا تھا_ چنانچہ ادھر کے جاننے والے سب ان کو بےنظیر صاحبہ کہہ کہ ہی پکارتے_ ادھر سے تازہ بھرتی، بھرتی شدہ یا فیملی کے ساتھ کوئی بھی جاتا پہلا پڑاؤ ان کی رہائش گاہ ہوتی_ آرمی میس پر بیٹھے فون کال آئی کہ کچھ جوان آۓ ہیں ان کا کوئی مسئلہ بن گیا ہے_ ہوا یوں تھا کہ انہوں نے آرمی میں شمولیت کی غرض سے آپنی آپنی میٹرک کی اسناد جعلی بنوائیں تھیں_ جب ایک پکڑا گیا تو اس نے سب کا پول کھول دیا_ ان کے بچاؤ اور واپسی کیلۓ سوچ بچار شروع ہوئی_ محترمہ کے خاوند کے آرمی آفیسران سے اچھے تعلقات تھے، انہوں نے رابطے کیۓ اور چند ایک خاتون ٹیچرز جو آرمی پبلک سکول میں بچوں کو پڑھاتی تھیں اور ہاسٹل میں موجود آپنے چند فیلوز سے ان کا مسئلہ شیئر کیا کہ آپ ان کو بھرتی نہ کریں مگر انوسٹی گیشن اور سزا کے مرحلے سے چھوڑ دیں_ خیر صبح ایک کرنل صاحب کے آفس پہنچے تو سب سے باری باری تفتیش ہوئی_ جعلی ڈگری کس نے بنا کر دی_ یہ سب نوجوان باری باری بولے بس تعلیم کی مقررہ حد کی اہلیت نہیں رکھتے تھے تو چالیس، چالیس ہزاد دے کر یہ ڈگریاں بنوائیں_ یاد رہے کہ ان میں ہمارے راج محل کا بھی ایک جوان تھا جو اتنا ٹیلنٹڈ نہیں تھا_ جب اس سے پوچھا گیا تو دیسی لعب و لہجے میں بولا او سر جی میں جب وردی میں آرمی کے جوانوں کو دیکھتا ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے، سر جی مجھے آرمی کے جوانوں کی یہ وردی بہت پسند ہے، اس کو پہننے کا شوق تھا بس میں نے یہ ڈگری بنوا لی_ اس کا انداز اور بےدھڑک بول چال سن کر سب کو ہنسی آگئ_ کرنل صاحب نے کہا کہ تم رکو اور باقی سب جاؤ اور گھوم کر انچارج کو بولا ! ان سب کو مزید کسی تفتیش کے ریجیکٹ کر کے واپس گھر بھیج دو البتہ اس کو رکھ لو جو کہتا ہےکہ وردی اچھی لگتی ہے_ انچارج صاحب بولے اسے کس بنیاد پر آخر_ کرنل صاحب بولے کہ ڈگریاں سب کی جعلی ہیں اور اس جوان کی بھی جعلی ہے مگر یہ روزگار کی یا کسی اور مجبوری کے بجاۓ بتا رہا ہےکہ اسے آرمی کی وردی پسند ہے_ سنو میجر اس کے پاس ڈگری نہیں ہے لیکن ایک جنون ہے اور ہمیں اسی جوان کی ضرورت ہے_ اسے رکھ لو_ یاد رہےکہ اس جوان نے وانا، وزیرستان اور دھشت گردوں کے خلاف تمام آپریشنز میں بھرپور حصہ لیا_ آج کل سیاچن کے محاز پر ہوتا ہے_ اس کے پاپا گوجرانوالہ مونگ پھلی اور ریوڑیوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اور ہم دوست جب بھی اکھٹے کبھی گھومنے جائیں تو اسی اظہار تشکر کے طور پر تین، تین کلو کے پیکٹ زبردستی گاڑی میں رکھ جاتے ہیں_ یاد رہےکہ بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی خاطر اصول اور ضابطے توڑنے پڑتے ہیں___ اسی طرح انگلینڈ جانے کیلۓ ایک آفس کے باہر تین، چار سو آدمیوں کی قطار لگی تھی_ شدید گرمی میں سب نڈھال اور دھکم، پیل کر رہے تھے_
سب پریشان تھےکہ آفس بند ہونے کے اختتامی لمحات ہیں، رات کدھر گذاریں گے اور کل کون آۓ گا_ ان کی لمبی قطار میں کھڑا ایک گریجویٹ لڑکا بار بار انٹرویو انٹری کے ٹوکن جاری کرنے والے کے پاس بیٹھے ایک آفیشل کی جانب جھانک کر دیکھتا اور مسکرا کر قطار کی اوٹ میں ہو جاتا_ محض چار، پانچ منٹ کے دورانیۓ میں اس نے تین، چار بار جھانک کر مسکرا کر اس آفیشل کو جھانک کر دیکھا اور قطار کی اوٹ میں ہوگیا_ اسی دوران آفس بند ہونے کا ٹائم ہوا اور گارڈ نے دروازہ بند کر دیا مگر اس آفیشل نے دوبارہ دروازہ کھولا اور باہر کھڑے گارڈ کو اشارہ کرکے کہ کہا کہ قطار میں کھڑے اس لڑکے کو بلا کر لاؤ_ اس افیشل کا اشارہ اور گارڈ کی سن کر لڑکا اس کے پاس آیا تو آفیشل اسے پکڑ کر اندر لے گیا اور اس کے ڈاکومنٹس ساتھ منسلک درخواست پر آپنی اوکے کے ساتھ منظوری اور ریمارکس تحریر کر دیۓ اور کہا کہ جاؤ تمہارا ویزہ انگلینڈ کیلۓ کنفرم ہے یعنی ایک خاص ادا اور مسکراہٹ اس کے ویزے کیلۓ معاون بن گئ اور پوچھنے پر اس آفیشل نے بھی بتایا کہ جب پورا دن شدید گرمی میں سب کھڑے کھڑے بور اور اونگھ رہے تھے تب اس جوان نے کسی تھکن اور بوریت کو ظاہر کیۓ بناء جب مجھے جھانک کر مسکرا کر دیکھا تو میری تھکن اور مسکراہٹ بھی دور ہوگئ_ مجھے لگا کہ یہ لڑکا ہماری فرم کیلۓ مفید ہو سکتا ہے_ چنانچہ ثابت ہوتا ہےکہ اہلیت سے زیادہ جذبہ اور شوق معیار اور کارکردگی یا کسی کام کی انجام دہی پہ اثرانداز ہوتا ہے___ واضع ہوکہ سابق وزیراعظم سردارعتیق صاحب نے پولیس فورس میں ان پڑھ آفراد کا کوٹا رکھا_ میں اور بہاولپور کا ایک فوجی دوست بیٹھے تھے کہ وہ خبر پڑھ کر طنزیہ ہنسنے لگا_ جناح کیپ پہنے ہوبہو قائداعظم کی کاپی ایک ریٹائرڈ کیپٹن جو اب ایک ادارہ کے کیپٹن تھے وضاحت کی کہ جوان پولیس فورس کو کبھی ایسا ٹاسک مل جاتا ہے جس پر ایک پڑھے لکھے کی بجاۓ ایک ان پڑھ زیادہ بہتر طور پورا اتر سکتا_ مثال کے طور پر ایک ایسی کیفیت یا جگہ ہے جس میں آپ نے کاروائی کرنی ہے_ عین خطرے کے وقت ایک پڑھا لکھا ہر حوالے سے سوچے گا کہ ہدف کیسے حاصل ہوگا؟ میں بھاگوں گا کیسے؟ جان کیسے بچانی ہے چنانچہ اس کی عقل اس کے جذبے پر حاوی ہوگی جب کہ ان پڑھ مارو یا مر جاؤ کے جذبہ تحت ہدف پر حملہ آور ہوگا جس کی وجہ سے ٹاسک کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں_ (جاری ہے) سانول آکاش
مزید اچھی اچھی اردو پوسٹ پڑھنے کے لیے تیز خبر ڈاٹ کم کو وزٹ کرتے رہیں۔شکریہ
Post a Comment