ننھی زینب کا قاتل مرکزی ملزم جیل سے فرار۔پولیس اور انتظامی اداروں کی غفلت کی وجہ سے معصوم زینب کا قاتل کوٹ لکھپت جیل سے دن دیہاڑے فرار ہو گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کا تعلق بااثر افراد سے تھا چونکہ اس سے پہلے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت متعدد صحافی و تجزیہ نگار اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ملزم سمیت بہت سی سیاسی و سماجی شخصیات معصوم زینب کے گھناونے قتل میں ملوث ہیں۔اس سے پہلے بھی کہا جا رہا تھا کہ ملزم کا تعلق ایک ایسے گینگ سے ہے جو اس سے پہلے بھی بیشتر اسی طرح کی وارداتوں میں ملوث ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ملزم کے باقی ساتھی بھی قانون کے شکنجے میں آئیں تو ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت بہت سے لوگوں کے دعوے سچ ثابت ہو سکتے ہیں۔اور ہماری سیاسی نظام کے اندر موجود خامیاں بھی منظر عام پر آ سکتی ہیں۔پنجاب پولیس کے افسران بالا نے اس واقعے پر کسی بھی قسم کا ردعمل دینے سے گریزاں کیا لیکن پولیس کا دعوی ہے کہ ملزم مرکزی قاتل عمران علی کے بہت سے ساتھیوں کی گرفتاریوں کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔جبکہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ با اثر ملزمان کو بچانے کے لیے پنجاب ھکومت رانا ثنااللہ جیسے کریمینل کی زیر قیادت غنڈہ گردی کی محافظ بن چکی ہے۔اور پولیس آئے روز ملزم عمران علی اور اس کے با اثر ساتھیوں کو بچانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔جبکہ اس کا منہ بولتا ثبوت ملزم کی پھانسی رکوانے کے لیے نا اہل انتظامیہ اپنی قابلیت کا عملی مظہرہ کر چکی ہے۔جبکہ عوام کا کہنا ہے کہ اگر ملزم کو فرار کروانے کی کوئی کوشش کی گئی تو ہم اس کی ذمہ دار پنجاب کو سمجھیں گے۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزم عمران علی کو بھگانے کی کوشش کی گئی لیکن خفیہ اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اگر ملزم کی پھانسی میں مزید تاخیر کی گئی تو زینب کو انصاف ملنا ناممکن ہو جائے گا۔
ننھی زینب کا قاتل مرکزی ملزم جیل سے فرار.ذرائع
ننھی زینب کا قاتل مرکزی ملزم جیل سے فرار۔پولیس اور انتظامی اداروں کی غفلت کی وجہ سے معصوم زینب کا قاتل کوٹ لکھپت جیل سے دن دیہاڑے فرار ہو گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کا تعلق بااثر افراد سے تھا چونکہ اس سے پہلے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت متعدد صحافی و تجزیہ نگار اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ملزم سمیت بہت سی سیاسی و سماجی شخصیات معصوم زینب کے گھناونے قتل میں ملوث ہیں۔اس سے پہلے بھی کہا جا رہا تھا کہ ملزم کا تعلق ایک ایسے گینگ سے ہے جو اس سے پہلے بھی بیشتر اسی طرح کی وارداتوں میں ملوث ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ملزم کے باقی ساتھی بھی قانون کے شکنجے میں آئیں تو ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت بہت سے لوگوں کے دعوے سچ ثابت ہو سکتے ہیں۔اور ہماری سیاسی نظام کے اندر موجود خامیاں بھی منظر عام پر آ سکتی ہیں۔پنجاب پولیس کے افسران بالا نے اس واقعے پر کسی بھی قسم کا ردعمل دینے سے گریزاں کیا لیکن پولیس کا دعوی ہے کہ ملزم مرکزی قاتل عمران علی کے بہت سے ساتھیوں کی گرفتاریوں کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔جبکہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ با اثر ملزمان کو بچانے کے لیے پنجاب ھکومت رانا ثنااللہ جیسے کریمینل کی زیر قیادت غنڈہ گردی کی محافظ بن چکی ہے۔اور پولیس آئے روز ملزم عمران علی اور اس کے با اثر ساتھیوں کو بچانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔جبکہ اس کا منہ بولتا ثبوت ملزم کی پھانسی رکوانے کے لیے نا اہل انتظامیہ اپنی قابلیت کا عملی مظہرہ کر چکی ہے۔جبکہ عوام کا کہنا ہے کہ اگر ملزم کو فرار کروانے کی کوئی کوشش کی گئی تو ہم اس کی ذمہ دار پنجاب کو سمجھیں گے۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزم عمران علی کو بھگانے کی کوشش کی گئی لیکن خفیہ اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اگر ملزم کی پھانسی میں مزید تاخیر کی گئی تو زینب کو انصاف ملنا ناممکن ہو جائے گا۔
Post a Comment